Orhan

Add To collaction

بدلتی قسمت

بدلتی قسمت از مہمل نور قسط نمبر27

ماما مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔شازل آئمہ بیگم کی پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔۔۔ بولو کیا بات ہے۔۔۔آئمہ اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔ ماما میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔شازل سنجیدگی سے بولا۔۔۔ اللہ کا‎ شکر ہے تمہیں شادی کا خیال تو آیا۔۔۔اگر تم نی کنزہ سے منگنی نہ توڑی ہوتی تو آج ہی میں شادی کی تاریخ لینے چلی جاتی اب تو دوبارہ کوئی لڑکی ڈھونڈنی پڑے گی۔۔۔آئمہ نی ناگواری سے کہا۔۔۔ اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ کیا مطلب اس کی ضرورت نہیں ہے۔۔؟؟کیا تمہیں کوئی لڑکی پسند آگئی ہے۔۔۔آئمہ نی سوالیہ نظرو سے اسکی طرف دیکھا۔۔ جی۔۔۔شازل سر جھکا کر بولا۔۔ یہ تو اچھی بات ہے۔۔۔کون ہے وہ۔۔؟؟ ہانیہ۔۔۔ ہانیہ کی نام پر تو آئمہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔۔ تم ہوش میں تو ہو۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہو ہانیہ سے شادی۔۔۔؟؟آئمہ کا لہجہ سرد تھا۔۔۔ جی ماما ہانیہ سے شادی۔۔۔اسکو طلاق ہوگئی تھی۔۔۔اور اب وہ اپنی بیٹیوں کی ساتھ نانو کی پاس رہ رہی ہے۔۔۔شازل نے نارمل انداز میں کہا۔۔۔ اوو۔۔۔اب میں سمجھی آج کل تم اماں جی کی پاس کیوں رہنے لگے ہو۔۔۔رومان تو بس بہانہ تھا اصل وجہ تو وہ منحوس ہانیہ ہے۔۔۔ ماما پلیز آپ اسکے بارے میں ایک لفظ نہیں کہے گی۔۔۔اب کی بار شازل بھی انہی کی انداز میں بولا۔۔ کیون نہ کہوں۔۔۔جب سے وہ تمہاری زندگی میں آئی ہے۔۔ تمہیں مجھ سے دور کر دیا ہے۔۔اللہ‎ اللہ‎ کر کے اس سے جان چھوٹی تھی اور وہ بی بی طلاق لے کر پھر سے آگئی۔۔۔اور نہ صرف خود بلکہ اب تو اسکی بیٹیاں بھی ہے واہ۔۔۔ ماما اس نے مجھے آپ سے دور نہیں کیا بلکہ آپ کے الفاظ مجھے آپ سے دور کرتے ہیں۔۔۔اور رہی بات اسکی تو مجھے تو ابھی یہ بھی نہیں پتا وہ مجھ سے شادی کریں بھی کہ نہیں۔۔۔ کیوں نہیں کریں گی۔۔۔اس کا اور اسکی بچیوں کا خرچہ اٹھاؤں گے اور اسے کیا چاہیے۔۔آئمہ طنزیہ مسکرائی۔۔۔ ماما اسے میری یا میرے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔جانتی ہیں کیوں۔۔۔کیونکہ وہ اے سی ہے اس شہر کی۔۔۔اسے مجھ جیسے انسان کی ضرورت کیا ہے۔۔۔۔؟؟ شازل کی بات پر تو آئمہ کو سکتے میں آگئی۔۔۔ لیکن پھر بھی میں اس لڑکی سے تمہاری شادی کبھی نہیں ہونے دونگی۔۔جانتے ہو نہ اسکے باپ نی میرے ساتھ کیا کیا تھا۔۔۔ ماما بس بہت ہوگیا۔۔۔اب بھی آپ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہیں۔۔جبکہ آپ جانتی ہیں کہ اس دن میں نے آپ کی اور نانو کی باتیں سن لی تھیں۔۔۔مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میری ماں ایسی بھی ہوسکتی ہیں۔۔۔شازل دکھ سے بولا۔۔۔ شازل کی بات پر تو آئمہ کو سانپ سونگھ گیا۔۔ اسے شازل سے امید نہیں تھی کہ اسے چار سال پہلے والی بات یاد ہوگی۔۔۔ کیا ہوا اب کیوں نہیں بول رہیں آپ۔۔۔؟؟ماما بابا چلے گئے انکل انٹی بھی اس دنیا سے چلے گئے۔۔۔اور اب آپ یہ چاہتی ہیں کہ میں بھی چلا جاؤں۔۔تب آپ کی انا کو سکون ملے گا۔۔۔ماما کبھی آپ نے بابا کو سکون نہیں دیا۔۔۔میں بچہ نہیں تھا جب وہ اس دنیا سے گئے۔۔۔آپ جانتی ہیں انکو ہارٹ اٹیک بھی آپ کی وجہ سے آیا تھا۔۔۔ماما آپ کو صرف اور صرف خود سے محبت ہے بس۔۔۔آپ بس یہ چاہتی ہیں کہ جو آپ چاہے وہی ہو۔۔۔پر ایسا نہیں ہوتا ہم انسان ہیں جیتے جاگتے سانس لیتے انسان۔۔۔جن کے دل میں بھی احساسات ہیں۔۔وہ بھی اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہیں۔۔۔۔پر آپ ایسا نہیں چاہتی۔۔۔تو ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔آپ رہیں اپنی انا کے ساتھ ۔۔کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔ نہیں شازل تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔۔۔تم میرے بیٹے ہو۔۔۔دیکھو تم ہانیہ کی علاوہ جس سے کہو گے میں وعدہ کرتی ہوں تمہاری شادی اسی سے کرواؤنگی۔۔۔پر شنواری کی بیٹی سے نہیں۔۔۔آئمہ اسکا بازو تھام کر بولی۔۔۔۔۔ واہ ماما آج آپ نے ثابت کر دیا اکثر لوگ اپنے پیارو کو مرتا تو دیکھ سکتے ہیں پر اپنی انا کو نہیں مار سکتے۔۔۔اور بدقسمتی سے آپ بھی انہی میں سے ہیں۔۔۔اور شادی تو اب میں ہانیہ سے ہی کرونگا۔۔۔اپنا بازو آئمہ کے ہاتھ سے چھوڑا کر چلا گیا۔۔۔ اور آئمہ وہی ڈھ گئی۔۔۔تم نے اور تمہاری بیٹی نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا پاکی۔۔ پہلے تم نے میرے شنواری کو مجھ سے چھینا اور اب تمہاری بیٹی نے مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا۔۔۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی کبھی نہیں۔۔۔شازل کی جاتے ہی ہانیہ حلق کی بل چلا رہی تھی۔۔۔۔ لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ زبردستی چیزو کو تو اپنا بنایا جاتا ہے پر انسانو کو نہیں۔۔۔


السلام علیکم۔۔۔آپ ہانیہ بات کر رہی ہیں۔۔۔ہانیہ نے فون اٹھا تو لائن کی دوسری سائیڈ پر کسی لڑکی نے پوچھا۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔جی میں ہانیہ بات کر رہی ہوں آپ کون۔۔۔۔ہانیہ نے حیرانگی سے پوچھا کیونکہ اس پہلے اسے کبھی اس نمبر سے فون نہیں آیا تھا۔۔۔۔ بھابھی میں میرب عماد بھائی کی بہن۔۔۔بولتے ہوئے وہ رو دی تھی۔۔۔ اور ہانیہ کو تو اس کی بات پر شاکڈ اس کی دل بس یہی خوف تھا کہ کہی وہ اس سے بچیوں سے ملنے کا مطالبہ نہ کر دیں۔۔۔ بولو کیا بات ہے اور تم نے میرا نمبر کہا سےلیا۔۔۔ہانیہ نے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔ بھابھی خالہ نے آپ کی بہن سے لے کر دیا ہے۔۔۔بھابھی آپ میرے بھائی کو پلیز معاف کی دیں۔۔۔بھابھی وہ بہت تکلیف میں ہیں۔۔۔ ہانیہ کو تو جیسے اسکی کسی بات کی سمجھ ہی نہیں آرہی تھی۔۔۔تم کیا کہہ رہی ہو میرب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔۔ بھابھی آپ کو گھر سے نکالنے کے کچھ دن بعد ہی بھائی کی فیکٹری کو آگ لگ گئی۔۔۔وہ فیکٹری جو انہوں نے ایمان کے پیدا ہونے کے بعد بنائی تھی اور اللہ‎ نے انھیں بہت ترقی دی تھی۔۔۔لیکن آپ کےجانے کےبعد وہ سب ختم ہوگیا۔۔۔اس بات کا بھائی نے اتنا صدمہ لیا ہے کہ وہ بستر مرگ پر پڑ گئے۔۔۔بھابھی ہر جگہ علاج کروایا پر کسی بھی ڈاکٹر کو انکی بیماری کی سمجھ نہیں آرہی۔۔۔امی کو کسی نے بتایا کہ انھیں آپ کی اور ایمان ایمن کی بددعا لگ گئی ہے۔۔۔بھابھی پلیز خدا کی لیے انھیں معاف کر دیں ہمارا ایک ہی بھائی ہے۔۔اور ہم سے اسکی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔۔۔اور امی بھی انکی وجہ سے دن بہ دن زیادہ بیمار ہو رہی ہیں۔۔ میرب زاروقطار رو رہی تھی۔۔۔ اور اسکی بات سن کر ہانیہ بھی رو دی تھی۔۔۔عماد نے اسکے ساتھ جیسا بھی سلوک کیا ہو پر ایک وقت گزرا تھا اسکے ساتھ۔۔۔اسکی بیٹیوں کا باپ تھا وہ۔۔۔ میں نے اسے معاف کیا اور میری بیٹیوں نے بھی۔۔۔اسے کہو وہ فیکٹری میری بیٹیوں کی قسمت کی تھی۔۔۔جو اللہ‎ نے ایمان کے پیدا ہونے پر اسے عطا کی تھی۔۔۔لیکن جب اس نے اللہ‎ کی رحمت کی قدر نہیں کی تو اللہ‎ نے اس سے ساری نعمتیں بھی چھین لی۔۔۔۔وہ مجھ سے نہیں الله سے معافی مانگے جس نے اسکی قسمت میں رحمت لکھی تھی۔۔۔لیکن اسے وہ نہیں چاہیے تھی۔۔۔اور جو اللہ‎ کی رحمت کی قدر نہیں کرتا اسے اللہ‎ نعمت سے بھی محروم کر دیتا ہے۔۔۔کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔۔۔ اور فوراً سجدیں میں گر گئی۔۔۔یا اللہ‎ تو نے تو سب کچھ اس دنیا میں ہی دیکھا دیا۔۔۔جس جس نے میری بیٹیوں کو زحمت سمجھا آج وہ تیری نعمتوں سے بھی دور ہوگئے۔۔۔مولا تو ٹھیک کہتا ہے قسمت والے ہوتے ہیں جن کو اللہ‎ بیٹیاں دیتا ہے اور میں بھی انہی میں سے ہوں۔۔۔یا اللہ‎ تو نے دیکھا جن بہنوں کو وہ بوجھ سمجھتا تھا آج وہی اسکی زندگی کی دعائیں مانگ رہی ہیں۔۔۔بیشک تو ہر چیز پر قدر ہے۔۔تیرا ہر فیصلہ بےمثال ہے جو شاید ہم جیسے گنہگاروں کو بہت دیر بعد سمجھ آتا ہے۔۔۔بولتے ہوۓ ہانیہ کی ہچکی باندھ گئی تھی۔۔۔

   0
0 Comments